وِتْرَانِ فِیْ لَیْلَۃٍ ) ’’ ایک رات میں دو وتر نہیں ‘‘ [ ابو داؤد : ۱۴۳۹ ، الترمذی : ۴۷۰ ، النسائی : ۱۶۷۹ ، احمد : ۴/۲۳ ، ابن حبان : ۴/۷۴ برقم ۲۴۴۰ ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الترمذی ] اور وتر کو توڑنا درست نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد بھی دو رکعات پڑھتے تھے ۔ [ مسلم : ۷۳۸ ] لہذا کوئی مسلمان جب رات کے ابتدائی حصے میں وتر پڑھ لے ، پھر سو جائے ، پھر اللہ تعالی رات کے آخری حصے میں اسے اٹھنے کی توفیق دے تو وہ دو دو رکعات پڑھ سکتا ہے ، اور اسے وتر توڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ پہلے وتر پر ہی اکتفا کرسکتا ہے ۔ [المغنی : ۲/۵۹۸] اور میں نے امام عبد العزیز ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے بلوغ المرام کی حدیث : ۴۰۷ کی شرح کے دوران سناتھا کہ ’’ وتر کو مؤخر کرنا سنت ہے ، لیکن اگر کوئی شخص اسے رات کے ابتدائی حصے میں پڑھ لے تو دوبارہ رات کے آخری حصے میں نہ پڑھے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ( لاَ وِتْرَانِ فِیْ لَیْلَۃٍ ) ’’ ایک رات میں دو وتر نہیں ‘‘ ، اور رہا وہ شخص جو وتر کو توڑنے کا قائل ہے تووہ درحقیقت وتر تین مرتبہ پڑھتا ہے ، لہذا درست بات یہ ہے کہ رات کے ابتدائی حصے میں وتر پڑھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں وہ نفل نماز پڑھ سکتا ہے ، اور اسے وتر دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔‘‘ [ نیز دیکھئے : مجموع فتاوی ابن باز : ۱۱/۳۱۰ ۔ ۳۱۱ ] 12. وتر کیلئے گھر والوں کو بیدار کرنا مشروع ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز پڑھتے تھے اور |