ترجمہ : ’’ اے ایمان والو ! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ، اور اپنے اعمال کوباطل نہ کرو ‘‘ اور یہ لوگ پہلی حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان سے مراد یہ ہے کہ اقامتِ نماز کے بعد کوئی نمازِ سنت یا عام نفل نماز شروع نہیں کی جا سکتی ، اور اگر کوئی شخص پہلے سے نفل نماز پڑھ رہا ہو اور اسی دوران اقامت ہو جائے تو وہ اپنی نماز مکمل کر لے ۔ اور بعض اہلِ علم کا یہ کہنا ہے کہ اگر اسے جماعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ نماز توڑ دے ، اور اگر اسے یہ اندیشہ نہ ہو تو اپنی نماز مکمل کر لے ، لیکن صحیح بات ‘ جس پر احادیث دلالت کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہے کہ وہ اپنی نماز توڑ دے ، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے ، اور اس سے زیادہ صریح الفاظ صحیح مسلم میں ہیں کہ جب نمازِ فجر کی اقامت ہو رہی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( أَتُصَلِّیْ الصُّبْحَ أَرْبَعًا ) ’’ کیا تم فجر کی چار رکعات پڑھنا چاہتے ہو؟ ۔‘‘ اور یہی بات میں نے اپنے استاذ امام عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی سنی تھی ، انہوں نے اسی موقف کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا : ’’ آیت کریمہ عام ہے اور حدیث خاص ہے ، اور خاص عام کے عموم کو ختم کردیتا ہے اور اس کے مخالف نہیں ہوتا ، جیسا کہ اصول فقہ اور مصطلح الحدیث میں یہ بات معلوم ہے ، لیکن اگراقامتِ نماز اس وقت ہو جب سنت یا نفل نماز پڑھنے والا دوسری رکعت کا رکوع کر چکا ہو یا سجدوں میں ہو ، یا التحیات پڑھ رہا ہو تو وہ اگر اپنی نماز مکمل کر لے تو اس میں |