کامیاب ہو گا ۔ [ شرح مسلم للنووی : ۵/۲۲۹ ، فتح الباری لابن حجر : ۲/۱۵۰ ، المغنی لابن قدامہ : ۲/۱۱۹ ، نیل الأوطار للشوکانی : ۲/۲۸۴ ] اور اس میں حکمت یہ ہے کہ تاکہ وہ ذہنی طور پر فرض نماز کیلئے تیار ہو جائے اورامام کے ساتھ ہی فرض نماز شروع کر ے ، کیونکہ اگر وہ نفل نماز میں مشغول ہو جائے گا تو امام کے ساتھ تکبیرِ تحریمہ اس سے فوت ہو جائے گی ، اور فرض نماز کو مکمل کرنے والے بعض امور رہ جائیں گے ، اس لئے فرض نمازہی زیادہ حق رکھتی ہے کہ اسے اچھی طرح سے مکمل کیا جائے ، اور دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ تاکہ امامِ مسجدکی اقتداء کو چھوڑنے کا تصور پیدا نہ ہو ، اور امام اور مقتدی کے درمیان اختلاف نظر نہ آئے ۔ اور جب کوئی شخص سنتیں یا عام نفل نماز پڑھ رہا ہو ، اور اسی دوران اقامت ہو جائے تو کیا وہ نماز توڑ کر جماعت کے ساتھ جا ملے یا اپنی نماز مکمل کرکے پھر جماعت میں مل جائے ؟ اس میں اختلاف پایا جاتا ہے ، اور جو اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ اسے نماز توڑ کر جماعت کے ساتھ مل جانا چاہئیے ، ان کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : ( إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلاَۃُ فَلاَ صَلاَۃَ إِلاَّ الْمَکْتُوْبَۃ ) ترجمہ : ’’ جب نماز کی اقامت ہو جائے تو سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی ۔‘‘[ مسلم : ۷۱۰] اور جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ اپنی نماز نہ توڑے بلکہ اس میں تخفیف کرکے اسے مکمل کر لے اور پھر جماعت میں مل جائے ، ان کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے : ﴿یٰا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ ﴾ [ سورۃ محمد : ۳۳ ] |