Maktaba Wahhabi

88 - 181
اور میں نے امام عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا کہ ’’ یہ دونوں صحیح حدیثیں اس بات کی قطعی دلیل ہیں کہ نمازِ چاشت سنتِ مؤکدہ ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ایک شخص کو کسی عمل کا تاکیدی حکم دیں تو وہ پوری امت کیلئے ہوتا ہے ، اور وہ صرف اس شخص کیلئے خاص نہیں ہوتا ، الا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی عمل کے متعلق خود فرمائیں کہ یہ حکم تمہارے لئے ہی خاص ہے تو وہ یقینا خاص ہو گا ، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم عام ہوتا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر ہمیشہ عمل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ مسنون نہیں ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ایک عمل شروع کرتے تاکہ اس کا مسنون ہونا ثابت ہو جائے ، اور پھر اسے چھوڑ دیتے تاکہ یہ ثابت ہو کہ وہ واجب نہیں ۔ [ یہ بات انہوں نے بلوغ المرام کی حدیث : ۴۱۵ کی شرح کے دوران بیان کی ] اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مذکورہ احادیث ذکر کرنے کے بعد اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ نمازِ چاشت سنتِ مؤکدہ ہے ۔ [ شرح صحیح مسلم : ۵/۲۳۷ ، نیز دیکھئے : فتح الباری : ۳/۵۷] لہذا درست یہ ہے کہ نمازِ چاشت پر ہمیشگی کرنا سنتِ مؤکدہ ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تاکیدی حکم دیا ، اور اس کی فضیلت کو بیان فرمایا ، اور خود اس پر عمل کیا ، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب یہ سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ چاشت کی کتنی رکعات پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : چار رکعات پڑھتے تھے ، اور کبھی کبھی زیادہ بھی پڑھ لیتے جتنی اللہ چاہتا ۔ [ مسلم : ۷۱۹ ] تاہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی نفی بھی مروی ہے ، چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں کہ ( مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ سُبْحَۃَ الضُّحٰی قَطُّ ، وَإِنِّیْ لَأُسَبِّحُہَا ،
Flag Counter