Maktaba Wahhabi

86 - 181
سے کہا : ابا جان ! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ، پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ، اور پھر یہاں کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے تقریبا پانچ سال نماز پڑھتے رہے ہیں ، تو کیا یہ تمام حضرات نمازِ فجر میں قنوت پڑھتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا : پیارے بیٹے ! یہ ایسا عمل ہے جو پہلے نہیں تھا،اب وجود میں آیا ہے ! [ الترمذی : ۴۰۲ ، النسائی : ۱۰۸۰ ، ابن ماجہ : ۱۲۴۱ ، احمد : ۶/۳۹۴ ۔ وصححہ الألبانی فی إرواء الغلیل : ۴۳۵ ] لہذا عام حالات میں نمازِ فجر میں قنوت کا پڑھنا بدعت ہے ، ہاں اگر ہنگامی حالات ہوں ، اور عام مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو تو مخصوص حالات میں نمازِ فجر میں قنوت پڑھی جا سکتی ہے ، اسی لئے حضرت سعد بن طارق رضی اللہ عنہ نے اسے ( مُحْدَث ۔ نیا کام ) قرار دیا ، اور ان کے اس اثر سے ‘ جس میں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا گیا ہے ‘ معلوم ہوتا ہے کہ قنوتِ نازلہ کا سبب موجود ہو تو اس کا پڑھنا مشروع ہے ، ورنہ یہ نماز کی کوئی دائمی سنت نہیں ، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قنوتِ نازلہ کی کوئی خاص دعا نہیں ، بلکہ سببِ قنوتِ نازلہ کے مطابق کوئی بھی دعا کی جا سکتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کرتے تھے ۔ [فتاوی ابن تیمیہ : ۲۳/۱۰۹ ، زاد المعاد : ۱/۲۸۲ ] درج بالا تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مخصوص ہنگامی / اضطراری حالات میں قنوتِ نازلہ مسنون ہے ، اور یہ تمام نمازوں میں پڑھی جا سکتی ہے ، تاہم مغرب اور فجر میں اس کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ، اور بہتر یہ ہے کہ قنوت رکوع سے اٹھنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر جہرا کی جائے ، اور مقتدیوں کیلئے مشروع ہے کہ وہ امام کی دعا پر آمین کہیں ۔
Flag Counter