Maktaba Wahhabi

67 - 181
اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ وتر کی پہلی رکعت میں ﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی ﴾ اور دوسری میں ﴿ قُلْ یٰا أَیُّہَا الْکٰافِرُوْنَ ﴾ اور تیسری میں ﴿ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ﴾ پڑھتے تھے ، اور آپ صرف آخری رکعت میں سلام پھیرتے ، اوراس کے بعد یہ دعا تین بار پڑھتے : (سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ ) ۔ [ النسائی : ۱۷۰۱ ۔ وصححہ الألبانی ، وانظر : نیل الأوطار : ۲/۲۱۱ ، فتح الباری : ۲/۴۸۱] اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تینوں رکعات ایک ہی تشہد کے ساتھ پڑھتے ، کیونکہ اگر اس میں دو تشہد ہوں تو اس طرح نمازِ وتر کی نمازِ مغرب سے مشابہت لازم آتی ہے اور اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ [ الشرح الممتع لابن عثیمین : ۴/۱۲] جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( لاَ تُوْتِرُوْا بِثَلاَثٍ ، أَوْتِرُوْا بِخَمْسٍ ، أَوْ بِسَبْعٍ ، وَلاَ تَشَبَّہُوْا بِصَلاَۃِ الْمَغْرِبِ ) ترجمہ : ’’ تم تین رکعات نمازِ وترنہ پڑھو ، بلکہ پانچ یا سات رکعات پڑھو ، اور اسے مغرب کے ساتھ تشبیہ نہ دو ‘‘ [ ابن حبان : ۲۴۲۹ ، الدارقطنی : ۲/۲۴، البیہقی : ۳/۳۱ ، وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی ، وقال الحافظ فی الفتح : ۲/۴۸۱: إسنادہ علی شرط الشیخین ] اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تین وتروں کے جواز والی احادیث اور منع والی احادیث کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ جواز والی احادیث اس بات پر محمول کی جائیں گی کہ تینوں رکعات ایک ہی تشہد کے ساتھ پڑھی جائیں ، اور منع والی احادیث اس بات پر محمول کی جائیں گی کہ انہیں دو تشہد کے ساتھ پڑھا جائے ، کیونکہ اس سے اس کی مغرب
Flag Counter