Maktaba Wahhabi

68 - 181
کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے ۔ [ فتح البار ی: ۲/۴۸۱ ، نیل الأوطار : ۲/۲۱۴ ] اور تین وتروں کے جواز کی ایک اور دلیل حضرت القاسم رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے ، وہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( صَلاَۃُ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی ، فَإِذَا أَرَدْتَّ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَۃً وَّاحِدَۃً تُوْتِرُ لَکَ مَا صَلَّیْتَ ) ترجمہ : ’’ رات کی نفل نماز دو دو رکعات ہے ، لہذا جب تم نماز ختم کرنا چاہو تو ایک رکعت ادا کر لو جو تمہاری نماز کو وتر ( طاق ) بنا دے گی ‘‘ یہ حدیث ذکر کرکے حضرت القاسم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ہم نے سنِ شعور سے اب تک بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہے جو تین وتر پڑھتے تھے ، اور نمازِ وتر کا معاملہ وسعت رکھتا ہے ،اس لئے مجھے امید ہے کہ ثابت شدہ کیفیات میں سے جس کیفیت کے ساتھ اسے ادا کر لیا جائے ، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ [البخاری :۹۹۳ ، مسلم : ۷۴۹ ] اور میں نے اپنے استاذ امام عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے الروض المربع ۲/۱۸۸ کی شرح کے دوران سنا تھا کہ نمازی جب تین وتر ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھے تو اسے اس طرح نہ پڑھے جیسا کہ مغرب کی نماز پڑھی جاتی ہے ، بلکہ دوسری رکعت کے اختتام پر تشہد کیلئے نہ بیٹھے اور آخری رکعت کے اختتام پر ایک ہی تشہد کے ساتھ پڑھے ۔ 10. ایک رکعت ، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( اَلْوِتْرُ رَکْعَۃٌ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ ) ’’ نمازِوتر رات کے آخری حصے میں ایک ہی رکعت ہے ۔‘‘[ مسلم : ۷۵۲ ] اور حضرت ابو مجلز کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وتر کے متعلق
Flag Counter