۲/۴۸۲ : إسنادہ قوی ] اور یہ عمل خود حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے ، چنانچہ ان کے شاگرد حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نمازِ وتر میں دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیتے ، یہاں تک کہ بعض اوقات سلام پھیرنے کے بعد اپنے کسی کام کا بھی حکم دیتے ، پھر ایک رکعت الگ پڑھتے [ البخاری : ۹۹۱ ، المؤطأ : ۱/۱۲۵ ] اور یہ موقوف اثر مرفوع حدیث کی تائید کر رہا ہے ۔ اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تائید میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی ذکر کی ہے ، وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات پڑھ کر گفتگو فرماتے ، پھر ایک رکعت وتر ادا کر تے ۔ [ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی نسبت ابن ابی شیبہ کی طرف کرتے ہوئے کہا ہے کہ : إسناد ہ صحیح علی شرط الشیخین ۔ إرواء الغلیل : ۲/۱۵۰] اور میں نے اپنے استاذ امام عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے نمازِ وتر کی اس کیفیت کے بارے میں سنا تھا کہ جو شخص تین رکعات وتر پڑھے اس کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ دو رکعات کے بعد سلام پھیر دے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھے ۔ [ یہ بات انہوں نے مورخہ ۱۵/۱۱/۱۴۱۹ھ کو الروض المربع ۲/۱۸۷ کی شرح کرتے ہوئے بیان کی] 9. تین رکعات ، ایک ہی تشہد کے ساتھ اس کی دلیل حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو پہلے بھی گذر چکی ہے ، اور اس میں یہ الفاظ ہیں : ( وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّوْتِرَ بِثَلاَثٍ فَلْیَفْعَلْ) ’’ اور جو شخص تین وتر پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے ‘‘ [ ابو داؤد : ۱۴۲۲ ، النسائی : ۱۷۱۲ ، ابن ماجہ : ۱۱۹۰ ۔ وصححہ الألبانی ] |