ہے ، اور اس کی ایک اور دلیل حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : تم وتر کس وقت پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : عشاء کے بعد رات کے ابتدائی حصہ میں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : تم کس وقت پڑھتے ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا : رات کے آخری حصے میں ، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( أَمَّا أَنْتَ یٰا أَبَا بَکْرٍ فَأَخَذْتَ بِالْوُثْقٰی ، وَأَمَّا أَنْتَ یٰا عُمَرُ فَأَخَذْتَ بِالْقُوَّۃِ ) ترجمہ : ’’ اے ابو بکر ! تم نے مضبوطی کو پکڑا ہے ، اور اے عمر ! تم نے قوت کو پکڑا ہے ‘‘ [ ابن ماجہ : ۱۲۰۲ ۔ وابو داؤد : ۱۴۳۴من حدیث أبی قتادۃ ۔ وصححہ الألبانی ] یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عمل کو مستحسن اور مضبوط قرار دیا کیونکہ وہ احتیاط سے کام لیتے اور نیند کی وجہ سے وتر کے فوت ہونے کے اندیشے کے پیشِ نظر اسے سونے سے پہلے پڑھ لیتے ، اور چونکہ نیند کو قربان کرکے نماز کیلئے بیدار ہونا ایک مشکل امر ہے ، اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں داد تحسین دی کہ تم نے طاقت ، ہمت اور پختہ ارادے کا ثبوت دیا ہے ۔ 3. جس شخص کو بیدار ہونے کا یقین ہو اس کیلئے وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھنا افضل ہے ، جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ خَافَ أَنْ لاَّ یَقُوْمَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ فَلْیُوْتِرْ أَوَّلَہُ ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ یَّقُوْمَ آخِرَہُ فَلْیُوْتِرْ آخِرَ اللَّیْلِ ، فَإِنَّ صَلاَۃَ آخِرِ اللَّیْلِ مَشْہُوْدَۃٌ ، وَذٰلِکَ أَفْضَلُ ) ترجمہ : ’’ جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ |