رات کے ابتدائی حصہ ہی میں وتر پڑھ لے ، اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کا خواہشمند ہو تو وہ آخری حصہ ہی میں پڑھے ، کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، اور یہ افضل ہے ۔‘‘ اور دوسری روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں : ( ۔۔۔ وَمَنْ وَثِقَ بِقِیَامٍ مِنَ اللَّیْلِ فَلْیُوْتِرْ مِنْ آخِرِہٖ ، فَإِنَّ قِرَائَ ۃَ آخِرِ اللَّیْلِ مَحْضُوْرَۃٌ ، وَذٰلِکَ أَفْضَلُ ) ترجمہ : ’’ اور جس شخص کو یقین ہو کہ وہ رات کو بیدار ہو جائے گا تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے ، کیونکہ رات کے آخری حصہ کی قراء ت سننے کیلئے فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، اور یہ بہتر ہے ۔‘‘[ مسلم : ۷۵۵ ] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : حدیثِ مذکور اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جس شخص کو بیدار ہونے کا یقین ہو اس کیلئے آخرِ شب میں وتر کی ادائیگی افضل ہے ، اور جسے یہ یقین نہ ہو اس کیلئے وتر کو نیند پر مقدم کرنا بہتر ہے ، اور یہی درست مسلک ہے ، اور جن احادیث میں سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے وہ اس شخص کیلئے ہیں جس کو بیدار نہ ہونے کا اندیشہ ہو ۔ [شرح صحیح مسلم : ۶/۲۸۱ ] اور آخرِ شب میں وتر پڑھنے کی فضیلت ایک اور حدیث سے بھی ثابت ہوتی ہے ، جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ ، فَیَقُوْلُ : مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ |