Maktaba Wahhabi

59 - 181
سلف سے مروی ہے کہ وہ فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان وتر پڑھ لیتے تھے ، تو یہ سنت کے خلاف ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا قول قابلِ حجت نہیں ہے ۔ [الشرح الممتع :۳/۱۶] 2. جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں بیدار نہ ہونے کا اندیشہ ہو اس کیلئے سونے سے پہلے وتر پڑھنا مستحب ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( أَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ صلی اللہ علیہ وسلم بِثَلاَثٍ [ لاَ أَدَعُہُنَّ حَتّٰی أَمُوْتَ ] ، صِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ، وَرَکْعَتَیْ الضُّحٰی ، وَأَنْ أُوْتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ) ’’ مجھے میرے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کا تاکیدی حکم دیا ہے ، جنہیں میں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا ، اور وہ ہیں ہر مہینے میں تین دن کے روزے ، چاشت کی دو رکعات ، اور یہ کہ میں نمازِ وترسونے سے پہلے پڑھوں ۔‘‘[ البخاری : ۱۹۸۱ ، ۱۱۷۸ ، مسلم : ۷۲۱ ] اور بعینہ یہی وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو بھی فرمائی ۔ [مسلم : ۷۲۲ ] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ سونے سے پہلے وتر پڑھنا مستحب ہے ، اور یہ اس شخص کے حق میں ہے جسے سونے کے بعد بیدار ہونے کا یقین نہ ہو ، اور اسی طرح وہ شخص جو بیدار ہونے کے بعد پھر سو جاتا ہو اس کے حق میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہ جب رات کو دوسری مرتبہ سونے کا ارادہ کرے تو سونے سے پہلے وتر پڑھ لے ۔ [ فتح الباری : ۳/۵۷ ] اور اس سے معلوم ہوا کہ وتر کا معاملہ لوگوں کے احوال اور ان کی طاقت پر موقوف
Flag Counter