Maktaba Wahhabi

58 - 181
فرماتی ہیں کہ رات کاکوئی حصہ ایسا نہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ وتر نہ پڑھی ہو ، رات کے ابتدائی حصے میں بھی پڑھتے تھے ، درمیانے حصے میں بھی اور آخری حصے میں بھی، اورآخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کے وقت ہی اسے ادا فرماتے تھے ۔ [البخاری : ۹۹۶ ، مسلم : ۷۴۵ ] مذکورہ تمام احادیث کو سامنے رکھ کر یہ بات کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ وتر کا وقت نمازِ عشاء کے بعد شروع ہوتا ہے اور فجرِ صادق کے طلوع ہونے پر ختم ہو جاتا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے بعد کسی کے قول کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اور ان احادیث میں بعض سلف صالحین رحمہم اللہ پر رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی نمازِ وتر پڑھی جا سکتی ہے ، جیسا کہ حضرت ابن عباس ، حضرت عبادۃ بن صامت ، حضرت القاسم بن محمد ، حضرت عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود7 کے بارے میں ذکر کیاگیا ہے کہ اگر ان حضرات سے طلوعِ فجر سے پہلے وتر فوت ہو جاتا تو وہ اسے طلوعِ فجر کے بعد پڑھ لیتے ،اس کے بعد نمازِ فجر ادا کر لیتے ۔ [ المؤطأ : ۲/۱۲۶ ، المصنف لابن أبی شیبہ : ۲/۲۸۶ ، مسند احمد : ۶/۲۴۲ ، ۲۲۳، إرواء الغلیل : ۲/۱۵۵ ، الشرح الممتع لابن عثیمین : ۳/۱۷، مجموع فتاوی ابن باز : ۱۱/۳۰۵ ۔ ۳۰۸] امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد صرف وہی شخص وتر پڑھ سکتا ہے جو وتر سے سویا رہ گیا ، ورنہ کسی شخص کیلئے یہ قطعا جائز نہیں کہ وہ جان بوجھ کر وتر کو مؤخرکرے اور اسے طلوعِ فجر کے بعد ادا کرے ۔ [ المؤطأ : ۲/۱۲۷ ، جامع الأصول : ۶/۵۹ ۔۶۱ ] اور علامہ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ طلوعِ فجر کے بعد وتر نہیں ہے ، اور جو بات بعض
Flag Counter