اور ایک نو جوان تمیم بن حذلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیتِ سجدہ کی تلاوت کی تو انہوں نے اس سے کہا : تم سجدہ کرو ، اور اس میں تم ہمارے امام ہو ۔ [البخاری معلقا : کتاب سجود القرآن باب من سجد لسجود القاریء ۔ قال الحافظ : وصلہ سعید بن منصور ] لہذا وہ سننے والا جو قاریٔ قرآن کی تلاوت کو بغور سن رہا ہو ، اور وہ اسے سنتے ہوئے اس کی متابعت بھی کر رہا ہو ، تو اگر قاریٔ قرآن سجدہ کرے تو وہ بھی کرے ، اور اگر وہ نہ کرے تو وہ بھی نہ کرے ۔ [ فتح الباری : ۲/۵۵۸ ، المغنی لابن قدامہ : ۲/۳۶۶ ، الشرح الممتع لابن عثیمین : ۴/۱۳۱ ] اور رہا وہ سامع جو سماعِ قرآن کا قصد نہیں کرتا بلکہ کہیں سے گذرتے ہوئے اس نے قراء ت سن لی ، اور قاری نے سجدہ کیا ، تو سامع پر لازم نہیں کہ وہ بھی سجدہ کرے ، جیسا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ اسے اس پر واجب نہیں سمجھتے تھے ۔ [ البخاری معلقا : کتاب سجود القرآن باب من رأی أن اللہ عز وجل لم یوجب السجود ۔ قال الحافظ : وصلہ ابن ابی شیبہ ] اور حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ کا کچھ لوگوں سے گذر ہوا جو کہ بیٹھے قرآن مجید پڑھ رہے تھے ، اور جب انہوں نے آیتِ سجدہ کو پڑھا تو سجدے میں پڑ گئے ، تب حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے بھی کہا گیا تو انہوں نے کہا : ( مَا لِہٰذَا غَدَوْنَا ) ’’ ہم اس کام کیلئے نہیں نکلے تھے ‘‘ [البخاری معلقا : وقال الحافظ : وصلہ عبد الرزاق ، وقال : إسنادہ صحیح ] اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے : ( إِنَّمَا السَّجْدَۃُ عَلٰی مَنِ اسْتَمَعَہَا ) ’’سجدۂ تلاوت اس پر ہے جو آیتِ سجدہ کو بغور سنے ۔‘‘[المرجع السابق ] |