اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے تھے ، اور جب کوئی ایسی سورت پڑھتے کہ جس میں سجدہ ہوتا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ ریز ہو جاتے ۔ ۔۔۔ [ البخاری : ۱۰۷۵ ، ۱۰۷۶ ، ۱۰۷۹ ، مسلم : ۵۷۵ ] اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سورۃ الانشقاق اور سورۃ العلق میں سجدۂ تلاوت کیا ۔ [ مسلم : ۵۷۸] اور یہ تمام احادیث سجودِ تلاوت کی اہمیت ومشروعیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہتمام پر دلالت کرتی ہیں ، تاہم کچھ ایسے دلائل بھی موجود ہیں جن سے ان کا واجب نہ ہونا ثابت ہوتا ہے ، جیسا کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق ثابت ہے کہ انہوں نے جمعہ کے روز منبر پر سورۃ النحل کی تلاوت کی ، یہاں تک کہ جب آیتِ سجدہ آئی تو آپ منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا ، اور اسی طرح لوگ بھی سجدے میں پڑ گئے ، پھر جب اگلا جمعہ آیا تو انہوں نے پھر وہی سورت پڑھی ، اور جب آیتِ سجدہ کی قراء ت کی تو آپ نے فرمایا : ( یٰا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّمَا نَمُرُّ بِالسُّجُوْدِ ، فَمَنْ سَجَدَ فَقَدْ أَصَابَ ، وَمَنْ لَّمْ یَسْجُدْ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْہِ ) ترجمہ : ’’ اے لوگو ! ہم آیاتِ سجود سے گذرتے ہیں ، لہذا جس نے سجدہ کر لیا اس نے ٹھیک کیا ، اور جس نے سجدہ نہ کیا اس پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے سجدہ نہ کیا ، اور ایک روایت میں ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَفْرِضْ عَلَیْنَا السُّجُوْدَ إِلاَّ أَنْ نَّشَائَ ) ترجمہ : ’’ بے شک اللہ تعالی نے ہم پر سجدۂ تلاوت فرض نہیں کیا ، ہاں اگر ہم اپنی مرضی سے کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ۔‘‘[ البخاری : ۱۰۷۷ ] |