اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تہجد سے اکتانے کی بجائے اس سے راحت محسوس فرماتے تھے ، اور نماز آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( حُبِّبَ إِلَیَّ النِّسَائُ وَالطِّیْبُ ، وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِیْ الصَّلاَۃِ ) ترجمہ : ’’ میرے دل میں عورتوں کی اور خوشبو کی محبت ڈال دی گئی ہے ، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ‘‘ [احمد : ۳/۱۲۸ ، النسائی : ۳۹۴۰ ۔ وصححہ الألبانی ] اور سالم بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : کاش میں نماز پڑھتا اور مجھے راحت محسوس ہوتی ، تو لوگوں نے اسے گویا برا بھلا کہا، تو اس نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ، آپ نے فرمایا : ( یٰا بِلاَلُ ! أَقِمِ الصَّلاَۃَ ، أَرِحْنَا بِہَا ) ’’ اے بلال ! نماز کی اقامت کہو اور ہمیں اس کے ذریعے راحت پہنچاؤ۔‘‘ [ ابو داؤد : ۴۹۸۵ ، ۴۹۸۶ ۔ وصححہ الألبانی ] تاہم امت کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یہ ہے کہ ( خُذُوْا مِنَ الْأعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ ، فَإِنَّ اللّٰہَ لاَ یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا ) یعنی ’’ تم اپنی طاقت کے مطابق ہی عمل کیا کرو ، کیونکہ اللہ تعالی اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم خود نہ اکتا جاؤ ۔‘‘ [ البخاری :۱۹۷۰، مسلم : ۷۸۲ ] اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( إِنَّ الدّیْنَ یُسْرٌ ، وَلَنْ یُشَادَّ الدّیْنَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا ، وَأَبْشِرُوْا ، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِنَ الدُّلْجَۃِ ، وَالْقَصْدَ |