ہو تو پھر قراء ت جہرا کرنا افضل ہے ، اور اگر اس کے قریب کوئی اور شخص بھی تہجد پڑھ رہا ہو، یا اس کی اونچی آواز سے کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس حالت میں قراء ت سرا (پست آواز کے ساتھ ) کرنا افضل ہے ، اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو وہ جیسے چاہے قراء ت کرے ۔ [ المغنی لابن قدامہ : ۲/۵۶۲ ] اور اس بارے میں احادیث موجود ہیں ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میں نے ایک برا ارادہ کر لیا ۔ ان سے پوچھا گیا : کس چیزکا ارادہ ؟ توانہوں نے کہا : میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ بیٹھ جاؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دوں ۔ [البخاری : ۱۱۳۵ ، مسلم : ۷۷۳ واللفظ لہ ] اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ، تو آپ نے سورۃ البقرۃ شروع کردی ، میں نے دل میں کہا : شاید آپ سو آیات پڑھ کر رکوع کریں گے ، لیکن آپ نے قراء ت جاری رکھی ، میں نے دل میں کہا : شاید آپ اسے دو رکعات میں مکمل کریں گے ،لیکن آپ نے قراء ت جاری رکھی ، میں نے دل میں کہا : شاید اسے مکمل کرکے رکوع میں چلے جائیں گے ، لیکن آپ نے اسے ختم کرکے سورۃ النساء شروع کردی ، اور اسے بھی ختم کردیا ، پھر آپ نے سورۃ آل عمران شروع کر دی ، اور اسے بھی ختم کردیا ، اور آپ ٹھہر ٹھہر کر قراء ت کر رہے تھے ، جب کسی تسبیح والی آیت سے گذرتے تووہاں تسبیح پڑھتے ، اور جب سوال والی آیت سے گذرتے تووہاں سوال کرتے ، اور جب پناہ والی آیت سے گذرتے تووہاں پناہ طلب کرتے ۔ ۔۔ [ مسلم : ۷۷۲] |