ساتھی کو اس کا حکم دے سکتا ہے ، اور یہ کہ حاکمِ وقت کو اور ہر ذمہ دار کو چاہئیے کہ وہ اپنی رعایا اور اپنے ماتحت لوگوں کی خبر گیری کرے ، اور ان کی دینی اور دنیاوی مصلحتوں کا خیال رکھے ، اور اس میں یہ بھی ہے کہ نصیحت کرنے والے کو چاہئیے کہ اگر اس کی نصیحت کو قبول نہ کیا جائے یا اس سے ایسی معذرت کر لی جائے جو اسے قبول نہ ہو تو وہ نہ اسے اپنے لئے عار سمجھے اور نہ ہی تشدد اور سختی کرے ۔ [ شرح مسلم للنووی : ۶/۳۱۱ ، فتح الباری : ۳/۱۱ ] اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا ہٹ کی حالت میں بیدار ہوئے اور آپ نے ارشاد فرمایا : ( سُبْحَانَ اللّٰہِ ! مَاذَا أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْخَزَائِنِ ! وَمَاذَا أَنْزَلَ مِنَ الْفِتَنِ ! أَیْقِظُوْا صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ ۔ یُرِیْدُ أَزْوَاجَہُ حَتّٰی یُصَلِّیْنَ ۔ ، رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِیْ الدُّنْیَا عَارِیَۃٌ فِیْ الْآخِرَۃِ ) ترجمہ : ’’ سبحان اللہ ! اللہ تعالی نے کتنے خزانے نازل فرمائے ہیں ! اور کتنے فتنے اتارے ہیں ! ان حجروں والیوں کو جگا دو ۔ یعنی آپ کی ازواج مطہرات کو تاکہ وہ نماز پڑھ لیں ۔ دنیا میں لباس پہننے والی کئی عورتیں قیامت کے دن برہنہ ہونگی ! ‘‘ [البخاری : ۱۱۵ ، ۱۱۲۶ ، ۶۲۱۸ ] الحافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں قیام اللیل کی ترغیب دی گئی ہے ، اسے واجب نہیں قرار دیا گیا ، اور اس میں یہ بھی ہے کہ بیدار ہوتے وقت اللہ تعالی کا ذکر کرنا چاہئیے ، اور اپنے گھرو الوں کو بھی عبادت کیلئے جگانا چاہئیے ، خاص طور پر اس وقت جب قدرتِ الہی کی کوئی نشانی ظاہر ہو ۔ [ فتح الباری : ۳/۱۱ ] |