Maktaba Wahhabi

124 - 181
انہوں نے اللہ تعالی کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے کیا : ﴿ وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلاَۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا لاَ نَسْأَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی ﴾ [ طہ : ۱۳۲ ] ترجمہ : ’’ اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے ، اور خود بھی اس پر ڈٹ جائیے ، ہم آپ سے رزق نہیں مانگتے ، وہ تو ہم خود آپ کو دیتے ہیں ، اور انجام ( اہلِ) تقوی ہی کیلئے ہے ۔‘‘[ المرجع السابق ] اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’ ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جب چاہے گا تو ہمیں اٹھا دے گا‘‘ یہ بات انہوں نے در اصل اللہ تعالی کے اس فرمان سے لی ہے : ﴿ اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْأَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرٰی إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمّٰی إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیٰاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ﴾ [ الزمر : ۴۲ ] ترجمہ : ’’ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کر لیتا ہے ، اور جو مرا نہ ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کر لیتا ہے ، پھر جس کی موت کا فیصلہ ہو چکا ہو اس کی روح کو روک لیتا ہے ، اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کیلئے واپس بھیج دیتا ہے ، غور وفکر کرنے والے لوگوں کیلئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔‘‘ اور جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر مارنے کا تعلق ہے تو اس کا سب سے بہتر معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حاضر جوابی اور ان کی طرف سے معذرت نہ کرنے پر ایساکیا ۔ اور اس حدیث میں قیام اللیل کی ترغیب کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ایک انسان اپنے
Flag Counter