Maktaba Wahhabi

125 - 336
صحیح حدیث کے اندرعمر رضی اللہ عنہ کامحدث (جس پرالہام ہو)ہونامتعین ہے۔ پس جو محدث اور مخاطب امت محمدیہ میں ہوں گے ، حضرت عمران میں سب سے افضل ہوں گے۔ اس کے باوجود حضرت عمروہی کیاکرتے تھے جوان پرواجب تھا ۔جو معاملات ان کو درپیش ہوتے تھے ، انہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے سامنے پیش کرتے تھے ، کبھی تووہ شریعت کے موافق ہوتے تھے اور یہ عمرکے فضائل میں داخل ہے ، جیساکہ ایک سے زائد مرتبہ قرآن کریم حضرت عمر کی رائے کے موافق نازل ہوا۔ [1] کبھی ان کی رائے شریعت کے مخالف بھی ہوتی تھی۔اس صورت میں وہ اس سے رجوع کرلیتے تھے جیساکہ انہوں نے حدیبیہ میں اپنی رائے سے رجوع کیاتھا ، حدیبیہ میں حضرت عمرکی رائے یہ تھی کہ مشرکین کے ساتھ جنگ کی جائے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں مشہورحدیث ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶ھ میں عمرہ کے لیے سفر کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریبا چودہ سومسلمان تھے ، جنہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی تھی ، اور آپ نے اس شرط پرمشرکین کے ساتھ مصالحت کرلی تھی کہ مسلمان اس سال واپس ہوجائیں گے ، اور آئندہ سال عمرہ کریں گے ، اور ان کے لیے ایسی شرطیں رکھی گئی تھیں جن کی روسے بظاہرمسلمانوں پر ایک طرح کاعیب لگتاتھا۔ یہ بات بہت سارے مسلمانوں کوناگوارگزری ، حالانکہ اس صلح وسمجھوتہ کے اندر جومصلحت کارفرماتھی اﷲ اور اس کے رسول اچھی طرح جانتے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جن کویہ معاہدہ ناپسندتھا۔یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکرعرض کیااے اﷲ کے رسول!کیاہم لوگ حق پر اور وہ باطل پرنہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیوں نہیں‘‘ انہوں نے کہا:کیاہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیوں نہیں ‘‘ عمرنے کہا:توپھرکیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خطاب کے بیٹے!میں اﷲ
Flag Counter