Maktaba Wahhabi

206 - 336
اسے نقصان نہیں پہنچتا‘‘ ، تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کے دل میں توبہ و استغفار کا خیال پیدا کرتا ہے ، چنانچہ وہ گناہوں پر اصرار نہیں کرتا۔ یہ گمان کہ گناہوں پر مصر رہنے والا نقصان سے بچ جائے گا سراسر گمراہی ہے ، ایسا شخص کتاب و سنت اور اجماع سلف اور ائمہ کا مخالف ہے۔ حقیقت تو یہ کہ جو ذرہ برابر نیکی کرے گا اس کا نتیجہ پائے گا ، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی ، اس کے انجام سے وہ دوچار ہوگا۔ قابل تعریف بندے وہی ہیں ، جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ کے حسب ذیل ارشاد میں وارد ہے: (وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ )(آل عمران: ۱۳۳۔ ۱۳۵) ’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے ، جو متقیوں کیلیے تیار کی گئی ہے۔ جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ، جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا گناہ کر بیٹھیں تو فوراََ اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں ، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔ ‘‘ قضاء وقدر کی حجت پیش کرنا مشرکین کاطریقہ ہے: یہ خیال کہ تقدیر گناہ گار بندوں کے لیے حجت ہے ، ایسا خیال رکھنے والوں کا شمار ان
Flag Counter