Maktaba Wahhabi

347 - 352
{ کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ } ترجمہ:’’تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کیلئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو‘‘ (آ ل عمران:۱۱۰) ’’المعروف‘‘ ہر وہ ایمان وعملِ صالح جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، ’’المنکر‘‘ ہر وہ فعل اور اعتقاد جسے اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہو اور اس سے روکا ہو، اور اہل السنۃ یہ دونوں کام شریعت کی راہنمائی کے مطابق انجام دیتے ہیں ،چنانچہ قدرت اور مصلحت کے پیشِ نظرہاتھ سے نہیں تو زبان سے وگرنہ دل سے، بخلاف معتزلہ کے جو اس معاملہ میںشرعی توجیہات کی مخالفت کرتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘کا تقاضا ہے کہ امراء وخلفاء پر خروج (بغاوت ) کیا جائے۔ (۲) ’’ویرون إقامۃ الحج والجمع والأعیاد مع الأمراء: أبرارا کانوا أو فجارا ۔‘‘ ’’اور فریضہ حج ،جمعہ اور عیدین کی ادا ئیگی اپنے امراء چاہے نیک ہوں یا فاجر ،کے ساتھ ادا کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں‘‘ یعنی اہل السنۃ ان شعائر کی ’’ولاۃ الامور‘‘ (حکمرانوں اور ان کے نائبین) کے ساتھ اقامت کو واجب اور ضروری قرار دیتے ہیں، یہ ولاۃ امور چاہے صالحین اورمستقیمین علی الحق ہوں یا فسق وفجور میں مبتلا ہوں البتہ ایسا فسق نہ ہو جو ملت سے خارج کرنیوالا ہو ،تاکہ مسلمانوں کا کلمہ ایک رہے اور وہ باہم اختلاف وانتشار سے بچے رہیں اور اس لئے بھی کہ فاسق حکمران کو محض اس کے فسق کی بنا پر معزول نہیں کیا جاسکتا ،اور نہ ہی اس بنیاد پر اس پر خروج جائز ہے کیونکہ اس سے حقوق کا ضیاع اور خون ریزی لازم آئے گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ کوئی بھی گروہ وقت کے حاکم کو ہٹانے کیلئے جو بغاوت کرتا ہے تو اس بغاوت کے مفاسد
Flag Counter