Maktaba Wahhabi

331 - 352
جب عام مؤمن کا یہ معاملہ ہے تو صحابہ تو اس مقام کے باقی لوگوں کی بنسبت زیادہ حقدار ہیں۔ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ فاذا فی الذنوب المحققۃ ،فکیف بالامور التی کانوا فیھا مجتھدین‘‘ یعنی جب ان سے واقعتا سرزد ہونیوالے گناہوں کا یہ معاملہ ہے کہ ان کے پاس ایسے اعمالِ صالحہ کا ذخیرہ ہے جو ان گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن سکتے ہیں ،تو وہ لغزسشیں اور خطائیں کیسے معاف نہیں ہوسکتیں جن میںوہ مجتہد تھے۔ اجتہاد کا معنی ہے حکم شرعی کی معرفت میں اپنی پوری طاقت وصلاحیت خرچ کردینا۔ چنانچہ ان اجتہادی امور میں اگر یہ مصیب(حق پر) ہیں تو ان کیلئے دواجر ہیں اور راگر مخطیٔ (غلطی پر) ہیں تو ایک اجر ہے اور خطأ معاف ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحابی سے صادر ہونیوالی خطأ قلت کے ساتھ ساتھ دوباتوں کے بین بین ہے (۱) یا تو وہ خطأاجہتاد سے صادر ہوئی ہے اس صورت میں تو اس کیلئے ایک اجرہے اور خطأ معاف ہے ۔ (۲) یا پھر یہ خطأ بغیر اجتہاد کے صادر ہوئی ہے تو ایسی صورت میں، اس کے پاس ایسے اعمال، فضائل اورخیرات کا ذخیرہ ہوگا جو اس خطأکے مٹنے کا سبب بن جائے گا۔ شیخ رحمہ اللہ نے آخر میں فضائل صحابہ کا اجمالاً ذکرفرمایا ہے ،جوکہ یہ ہیں: (۱) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور یہ ایمان افضل الاعمال ہے۔ (۲) اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے جہاد فی سبیل اللہ ،اور یہ تو اسلام کی چوٹی ہے۔ (۳) اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت ،اور یہ بھی افضل الاعمال میں سے ہے۔ (۴) اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اللہ تعالیٰ کا ان کے متعلق فرمان ہے: { وَیَنْصُرُوْنَ اللّٰه وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ } (الحشر:۸)
Flag Counter