Maktaba Wahhabi

294 - 352
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: [لایزنی الزانی حین یزنی وھو مؤمن،ولایسرق السارق حین یسرق و ھو مؤمن، ولایشرب الخمر حین یشربھا وھومؤمن ،ولاینتھب نھبۃ ذات شرف یرفع الناس إلیہ فیھا ابصارھم حین ینتھبھا وھو مؤمن ] (بخاری ومسلم) ترجمہ’’ زانی جب ز نا کررہا ہوتا ہے اس وقت وہ مؤمن نہیںہوتا، چوری جب چوری کررہا ہوتا ہے اس وقت وہ مؤمن نہیں ہوتا اور ڈاکوجب کسی عمدہ نفیس شیٔ پر ڈاکہ ڈال رہا ہوتا ہے اور لوگ اسی کی طرف آنکھیں اٹھائے دیکھ رہے ہوتے ہیںتو وہ بھی اس وقت مؤمن نہیںہوتا ] حدیث کا مطلب یہ ہے کہ زانی ،چور اور ڈاکو کامل الایمان مؤمن نہیں ہوتا ،حدیث میں زانی، چور اور ڈاکوسے کمالِ ایمان کی نفی کی گئی ہے جمیع ایمان کی نہیں ،اس کی دلیل یہ ہے کہ زانی،چور اور ڈاکو باجماع ا لمسلمین وراثت کے حق دار نہیں،کتاب وسنت کے دیگر بہت سے نصوص اس با ت پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ لوگ ان کبائر کی وجہ سے مرتد نہیں ہوجاتے ،جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اس حدیث میں کمال ایمان کی نفی کی گئی ہے ،جمیع ایمان کی نہیں۔ آخر میں شیخ رحمہ اللہ بحثِ سابق کا نتیجہ اورفاسق مسلمان کے حکم کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ ونقول ھو مؤمن ناقص الایمان اومؤمن بایمانہ فاسق بکبیرۃ، فلایعطی الاسم المطلق ولایسلب مطلق الاسم‘‘ یعنی ’’فاسق مسلمان کے متعلق ہمارا مذہب یہ ہے کہ وہ ناقص الایمان ہوتاہے یایہ کہ اپنے ایمان کی بناپر تو وہ مؤمن ہے البتہ ارتکاب کبیرہ کی بنا پر فاسق ہے‘‘( چنانچہ نہ تو اسے ایمان مطلق (کامل ایمان) کا نام دیا جائے اور نہ ہی مطلقاً اسم ایمان کی نفی کردی جائے) فاسق کے متعلق یہ حکم عدل پر مبنی ہے ،اور دونوں طرح کہ ادلہ کے درمیان جمع کی بھی یہی بہترین صورت ہے ۔
Flag Counter