Maktaba Wahhabi

215 - 352
نیز فرمایاـ:{ یُمْسِکُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُوْلًا } (فاطر:۴۱) ترجمہ:’’( اللہ تعالیٰ)آسمانوں اورزمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں‘‘ نیز فرمایا:{ وَیُمْسِکُ السَّمَائَ أَنْ تَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ اِلاّ َبِاِذْنِہٖ } (الحج:۶۵) ترجمہ:’’وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اسکی اجازت کے بغیر گرنہ پڑے‘‘ نیز فرمایا:{ وَمِنْ آیَاتِہٖ أَنْ تَقُوْمَ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِہٖ } (الروم:۲۵) ترجمہ:’’اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان وزمین اسی کے حکم سے قائم ہیں‘‘ عبارت کی تشریح … شرح … شیخ رحمہ اللہ بیان فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے متعلق خبردی ہے کہ وہ عرش پر ہے اور ہمارے ساتھ بھی ہے ،تو اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے جو خبردی ہے اس پر ایمان لاناواجب ہے ، اس کی تاویل کرنا اور ظاہری معنی نہ لینا جائز نہیں۔جس طرح کہ جہمیہ اور معتزلہ کرتے ہیں،ان کا زعمِ باطل ہے کہ استواء اور معیۃ حقیقتاً نہیں ہے بلکہ مجازاً ہے،اور’’ استواء علی العرش‘‘ کی تاویل ’’استیلاء علی الملک‘‘ یعنی ملک پر غلبہ سے کرتے ہیں۔اور ’’وعلواللّٰه علی خلقہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے جس علو یعنی سب سے بلند ہونے کاذکر ہے اس کی تأویل علوِ مرتبہ اور غلبہ سے کرتے ہیں۔ یہ سب تاویلاتِ باطلہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کلام میںتحریف کو موجب ہیں۔اورکچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفتِ معیت سے مراد یہ لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ میں حلول کیئے ہوئے ہے، یہ حلولیۃ الجھمیۃ کا عقیدہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان کے اس عقیدہ باطلہ سے بلند وبالا وپاک ہے۔ مصنف رحمہ اللہ کا قول:’’ ولکن یصان عن ا لظنون الکاذبۃ مثل أن یظن ظاھر قولہ: { فِی السَّمَائِ } أن ا لسما ء تقلہ أو تظلہ‘‘ یعنی بعض لوگ { فِی السَّمَائِ }
Flag Counter