Maktaba Wahhabi

197 - 352
کیونکہ اس رات چاند مکمل ہوتا ہے اور نور سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی رؤیت کو چودھویں کے چاند کی رؤیت سے تشبیہ دینے کامقصد اللہ تعالیٰ کی رؤیت میں تاکید اور پختگی پیداکرنا ہے، نیزرؤیت کے کسی بھی مجازی معنی کی نفی کرنا ہے (یعنی حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی رؤیت (دیدار)حاصل ہوگی)۔یہاں تشبیہ رؤیت کی رؤیت کے ساتھ ہے، مریٔ(دیکھی جانیوالی چیز) کی مرئی کے ساتھ نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی چاند کے ساتھ تشبیہ مقصود نہیں ہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مثل کوئی چیز نہیںہے ’’لیس کمثلہ شیٔ‘‘ ’’لاتضامون فی رؤیتہ ‘‘اس عبارت میں’’لاتضامون‘ ‘کو دوطرح سے پڑھا گیا ہے: (۱) تاء کے ضمہ اور میم کی تخفیف (یعنی بغیر تشدید ) کے ساتھ ۔ اس صورت میں معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت کے معاملے میں کسی پر ظلم نہیں ہوگا کہ بعض کو رؤیت نصیب ہو اور بعض کو نہ ہوسکے۔(بلکہ تمام اہل جنت کو رؤیت نصیب ہوگی) (۲) تاء کے فتحہ اور میم کی تشدید کے ساتھ ۔اس صورت میں معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت کی خاطر تمہیں ایک جگہ جمع نہیں ہونا پڑے گا کہ اس سے تم رش اور اژدھام کا شکار ہوجاؤ۔ بہرحال دونوں روایتوں کی صورت میں میںمعنی حدیث یہ ہے کہ تمہیں اپنے پروردگار کی واقعتا و حقیقتاً رؤیت حاصل ہوگی اور وہ بھی اس طرح کہ ہر شخص اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے اس دیدار سے محضوض ہوجائے گا۔ فجر اور عصر کی نماز میںمغلوب نہ ہونے کا معنی ہے کہ ان دونوں نمازوں کی حفاظت کریں،اس طرح کہ باجماعت اور وقت پر اداکریں،ان دونمازوں کا خصوصی طورپر ذکر اس لیئے کیاکہ دن اور رات کے فرشتے ان دونوں نمازوں میں جمع ہوتے ہیں، کیونکہ یہ دونمازیں افضل الصلوات ہیں اس لیئے ان کی حفاظت کرنیوالوں کو افضل ترین عطیہ دیا جائے گا ، جو کہ اللہ تعالیٰ کے چہرہ انور واقدس کی زیارت کی صورت میں ہوگا۔
Flag Counter