Maktaba Wahhabi

194 - 352
وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم[لما رفع الصحابۃ اصواتھم بالذکر :[ایھا الناس اربعوا علی انفسکم فانکم لاتدعون اصم ولاغائبا ، انما تدعون سمیعا بصیراً ،قریبا ان الذی تدعونہ اقرب إلی احدکم من عنق راحلتہ] (متفق علیہ) ترجمہ:ایک موقعہ پر صحابہ کرام بلند آواز سے اللہ تعالیٰ کا ذکرکررہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو اپنی جانوں پر نرمی کرو، تم بہرے اور غائب کو نہیں پکاررہے ،بلکہ تم ایسی ذات کو پکار رہے ہوجو سمیع بصیر اور قریب ہے ،جس ذات کو تم پکار رہے ہو وہ تم سے تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔ (بخاری ومسلم) …شرح… ’’اربعوافانکم لاتدعون اصم ولاغائبا‘‘ یعنی’’اپنی جانوں پر نرمی کرو کیونکہ تم بہری اور غائب ذات کو نہیں پکار رہے ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں صحابہ کو آہستہ آواز سے اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا حکم دیا، پھر اس کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بہری اور غائب نہیں ہے کہ تمہاری دعاؤں کو نہ سن سکے اور تمہیں نہ دیکھ سکے، بلکہ وہ تو سمیع،بصیراور قریب ہے ، لہذا آوازوں کو بلند کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بھلا جو ذات تمہاری سواریوں کی گردنوں سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے ،کیا وہ اپنے پکارنے اور ذکر کرنے والے کے قریب نہیں ہوگی۔ اور جو قریب ہو اسے پکارنے کیلئے آواز کو بلند کرنے کی ضرور ت نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہے وہ پست اور بلند ہرآواز کو یکساں طور پر سنتا ہے۔ شاہدِ حدیث: اس حدیث میں اس بات کا اثبات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے داعی کے قریب ہے، وہ جس طرح جہری اصوات کو سنتا ہے اسی طرح سری اصوات کو بھی سنتا ہے ۔ باب میں مذکور تمام احادیث سے اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق کے ساتھ معیت ،ان کے قریب ہونے، ان کی اصوات کو سننے اور ان کی حرکات وسکنات کو دیکھنے کا اثبات ہورہا ہے،اوریہ تمام
Flag Counter