Maktaba Wahhabi

326 - 338
۱۔ پہلی حدیث تو ابو داود و مسند احمد میں اس نابینا شخص والی ہے جس نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والی ایک یہودی عورت کو گلا دبا کر قتل کردیاتھا اور صبح جب معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون رائیگاں قرار دے دیا۔[1] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ حدیث ذکر کرکے لکھا ہے کہ یہ اس عورت کے قتل میں نص ہے کیونکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ اور یہ حدیث کسی ایسے مسلمان مردوزن یا ذمّی کے واجب القتل ہونے کی بھی بالاولیٰ دلیل ہے جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ و شتم کرے کیونکہ وہ یہودی عورت اہلِ ذمّہ و معاہدین میں سے تھی۔[2] ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دشنام طرازی کرنے والے گستاخ کے واجب القتل ہونے کی دوسری دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ابو داود و نسائی اور مسند احمد کی وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابی نے اپنے دو لعل و جواہر جیسے خوبصورت بچوں کی ماں [کنیز امِ ولد] کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے کی وجہ سے قتل کردیا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((أَلَا! اِشْہَدُوْا أَنَّ دَمَہَا ہَدَرٌ)) [3] ’’ خبردار ہوجاؤ اور اس بات کے گواہ بن جاؤ کہ اس کا خون ضائع و رائیگاں گیا ہے۔ ‘‘ ۳۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی طرح اذیت پہنچانے والے کے لیے سزائے
Flag Counter