Maktaba Wahhabi

340 - 338
’’ وَ تَحْرِیْرُ الْقَوْلِ فِیْہِ: أَنَّ السَّابَّ اِنْ کَانَ مُسْلِماً فَاِنَّہٗ یُکَفَّرُ وَ یُقْتَلُ بِغَیْرِ خِلَافٍ وَ ہُوَ قَوْلُ الْاَئِمَّۃِ الْأَرْبَعَۃِ وَ غَیْرِہِمْ وَ قَدْ تَقَدَّمَ مِمَّنْ حَکَیٰ الْاِجْمَاعَ عَلَٰی ذَٰلِکَ اِسْحَاقُ ابْنُ رَاہْوَیْہِ وَ غَیْرُہٗ، وَ اِنْ کَانَ ذِمِّیّاً فَاِنَّہٗ یُقْتَلُ أَیْضاً فِيْ مَذْہَبِ مَالِکٍ وَ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَ ہُوَ مَذْہَبُ أَحْمَدَ وَ فُقَہَائِ الْحَدِیْثِ۔‘‘[1] ’’اس مسئلہ میں فیصلہ کن اور طے شدہ بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا اگر مسلمان ہو تو اسے کافر قرار دیتے ہوئے بلااختلاف قتل کیا جائے گا۔یہ ائمہ اربعہ و غیرہ کا قول ہے، اور یہ بات گزر چکی ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ و غیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ اور اگر گالی دینے والا ذمّی ہو تو وہ بھی امام مالک اور اہلِ مدینہ کے مذہب میں قتل کیا جائے گا اور امام احمد و فقہائِ حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘ قیاس: اسی طرح علامہ موصوف رحمہ اللہ نے شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واجب القتل ہونے کے دلائل میں سے قرآن و سنت کی نصوص، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماعِ تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے تذکرہ کے علاوہ اجماعِ امت کے سلسلہ میں ائمہ کی نقول بھی پیش کی ہیں، اور آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص کے واجب القتل ہونے پر اعتبار و قیاس سے بھی استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ کئی قیاسی وجوہات بھی ناموسِ رسالت پر حرف گیری کرنے والے شخص کے قتل کی متقاضی ہیں اور پھر انھوں نے دس وجوہات ذکر کی ہیں اور آخر میں متعلقہ تمام شکوک و شبہات کا ازالہ بھی فرمایا ہے۔ یہ موضوع تقریبًا پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔[2]
Flag Counter