Maktaba Wahhabi

303 - 338
کہ وہ کسی مغربی ملک میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، اس کے آخری امتحانات اور حصولِ سرٹیفکیٹ کا وقت آگیا تو اس کے عیسائی استاذ نے مطالبہ کیا کہ تمھیں اپنے مقالہ [تھیسز] میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کچھ لکھنا ہوگا، اس نے پس وپیش کیا تو استاذ نے دھمکی دے دی کہ اگر نہ لکھو گے تو پاس نہ ہوگے اور نہ ہی ڈگری حاصل کرسکو گے۔ اس پر اس شخص نے حرصِ دنیا اور ہوائے نفس میں مبتلا ہوکر یہ گستاخی کرلی اور ناموس و شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کا نتیجہ اس نے جلد ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یورپ سے واپس لوٹا توگاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور اس حادثہ میں اس کے سارے اہلِ خانہ بیوی بچے لقمۂ اجل بن گئے۔[1] غرض ان سب گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام انتہائی ذلت ناک و عبرت ناک ہوا۔[2] ۴۳۔ گستاخ ایڈیٹر زندہ جل مرا: ہفت روزہ الاعتصام لاہور نے اپنی ایک اشاعت میں صفحہ (۱۲) کے حاشیہ میں لکھا ہے: ’’اخبارات میں اخبار کے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایڈیٹر کی پر اسرار طور پر جل جانے کی خبر چھپ چکی ہے۔‘‘ (حافظ عبد الوحید، مدیر الاعتصام) اور اسی شمارے (ص: ۲۳) میں چوکھٹہ لگا کر اس میں یہ خبر شائع کی ہے: ’’ڈنمادک کے اخبار [جالنڈز ’’یولانو‘‘ پوسٹن] کا بدبخت ایڈیٹر ایلیٹ بیک گزشتہ دنوں آگ کے عذاب سے ہلاک ہوگیا۔‘‘
Flag Counter