Maktaba Wahhabi

341 - 338
فقہی مکاتبِ فکر: ۱۔ زیرِ بحث مسئلہ میں چاروں معروف فقہی مکاتبِ فکر کے ائمہ و اصحاب کی آراء و افکار کی کھوج لگائیں تو پتہ چلتا ہے کہ فقہائِ احناف عام ائمہ و فقہا کی طرح ذمّی شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی رائے تو نہیں رکھتے تاہم ان کے نزدیک بھی جس طرح کسی تعزیر والے گناہ [مثلاً جماع فی غیر القبل] کا بار بار ارتکاب کرنے والے شخص کو امام و قاضی مصلحتاً قتل کروا سکتا ہے اور اِسے شرعی حد کے طور پر قتل کروانا نہیں بلکہ سیاستاً قتل کروانا کہا جاتا ہے اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم ذمّی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار گالی گلوچ کرے تو اسے بھی سیاستاً قتل کروایا جاسکتا ہے۔[1] جبکہ خود حنفی مذہب کے عالم امام ابو بکر جصاص نے مسلمان شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھا ہے: ’’ وَ لَا اِخْتِلَافَ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ أَنَّ مَنْ قَصَدَ النَّبِيَّ ﷺ بِذٰلِکَ فَہُوَ مِمَّنْ یَّنْتَحِلُ الْاِسْلَامَ وَ أَنَّہٗ مُرْتَدٌّ یَسْتَحِقُّ الْقَتْلَ۔‘‘ ’’مسلمانوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قصداً گالی دی وہ اسلام کا محض لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اور وہ مرتد ہے اور وہ قتل کا سزا وار ومستحق ہے۔‘‘[2] فقہ حنفی کی معتبر کتاب ’’رد المحتار شرح الدر المختار‘‘ المعروف فتاویٰ شامی میں لکھا ہے: ’’وَ فِيْ الَأَشْبَاہِ : لَا تَصِحُّ رِدَّۃُ السَّکْرَانِ اِلَّا الرِّدَّۃَ بِسَبِّ
Flag Counter