Maktaba Wahhabi

201 - 338
حتیٰ کہ ریڑھی والا بھی کام پر نہیں نکلتا کہ کہیں توڑ پھوڑ اور زدوکوب کا شکار نہ ہوجاؤں بلکہ یہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ کہیں جان سے ہی نہ جاؤں، ہسپتالوں سے ڈاکٹرز اور دوسرا عملہ غائب ہونے کی وجہ سے کئی مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اور پہیہ جام قسم کی ہڑتالوں میں تو کئی مریض ہسپتال پہنچنے کی بجائے اگلی دنیا میں جا پہنچتے ہیں۔ ان جانی نقصانات کے علاوہ ان ہڑتالوں کے ملکی معیشت پر جو برے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ماہرین اور اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ ایسے پر تشدد احتجاج و مظاہرات کہاں کی حب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ؟ اقتصادی مقاطعہ اور معاشی بائیکاٹ۔۔۔ براء ت کا ایک اہم ترین تقاضا: موجودہ حالات میں یہ حقیقت اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ دور محض جذباتی نعروں اور پر تشدد مظاہروں کا نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر تحفّظِ ناموسِ رسالت اور بقائِ اسلام کی منصوبہ بندی کا ہے۔ مغرب کی دوغلی پالیسیوں کے بارے میں مسلم حکّام و عوام کو شعور و بیداری سے کام لینا چاہیے اور اپنی ذاتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر کفار سے تجارتی و سفارتی تعلقات پر غور کرنا چاہیے، اقتصادی تعلقات و روابط پر نظر ثانی کی جائے اور ڈنمارک وغیرہ ممالک کے صرف دودھ، دہی، گوشت اور گھی ہی کا بائیکاٹ نہ ہو بلکہ اس ملک اور دیگر تمام کافر و گستاخ ملکوں کی غذائی اشیاء، دوائی مواد اور دیگر مصنوعات کا بھی بائیکاٹ ہو اور ان ممالک میں سے خاص طور پر وہ تمام ممالک ذہن میں رکھیں جن کے اخبارات نے توہین آمیز خاکوں کو شائع کیا ہے، جن میں سے ڈنمارک کے بعد ناروے، فرانس، اٹلی، نیوزی لینڈ، پرتگال، سپین، ہنگری، سویٹزرلینڈ، گرین لینڈ، بیلجیم، بلغاریہ، ارجنٹائن، آئرلینڈ، جنوبی افریقہ، چیکوسلواکیا، کینیڈا، آسٹریلیا، اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ بھی ہیں۔
Flag Counter