Maktaba Wahhabi

203 - 338
’’اہلِ مدینہ کو اور جو ان کے آس پاس دیہاتی رہتے ہیں ان کو شایاں نہ تھا کہ اللہ کے پیغمبر سے پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جانوں کو ان کی جان سے زیادہ عزیز رکھیں یہ اس لیے نہیں کہ انہیں اللہ کی راہ میں جو تکلیف پہنچتی ہے پیاس کی یا محنت کی یا بھوک کی یا وہ ایسی جگہ چلتے ہیں کہ کافروں کو غصہ آئے یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ہیں تو ہر بات پر اُن کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے کچھ شک نہیں کہ اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ ابو داود، نسائی، ابن حبان، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: ((جَاہِدُوْا الْمُشْرِکِیْنَ بِأَمْوَالِکُمْ وَ أَنْفُسِکُمْ وَ أَلْسِنَتِکُمْ )) [1] ’’مشرکین کے خلاف اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو۔‘‘ اس حدیث شریف میں مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنے مالوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مال کے ساتھ جہاد کرنے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ مجاہدین کو جہاد کے لیے اپنے مال مہیا کیے جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کفار کو اپنے مال سے فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے، ان سے معاشی مقاطعہ و بائیکاٹ کیا جائے، ان کی اقتصادیات کو خسارے سے دوچار کرکے ان کی کمر توڑی جائے، چنانچہ سنن ابی داود اور المختارہ للضیاء المقدسی میں وارد اس ارشادِ نبوی کا یہی مفہوم ہے: ((مَنْ أَحَبَّ لِلّٰہِ وَ أَبْغَضَ لِلّٰہِ وَ أَعْطَیٰ لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدْ اِسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ )) [2]
Flag Counter