Maktaba Wahhabi

167 - 338
مسلمان و محبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ و شوق بھی ہے جو کہ نظم و نثر کے اشعار و عبارات کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا فن ہے کہ جس میں تقریباً ہر مسلمان شاعر ہی نے طبع آزمائی کی ہے جبکہ حمدِ باری تعالیٰ پر طبع آزمائی کرنے والے شعراء کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اور اگر کسی نے کچھ حمدیہ قصائد نظم کیے بھی ہیں تو وہ نعتیہ قصائد و اشعار کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں۔ یہی معاملہ شعر خوانوں کا ہے کہ اکثر و بیشتر نعتیہ اشعار ہی پڑھتے نظر آئیں گے اور حمدیہ اشعار آپ ان سے کم ہی سنیں گے۔ محفلِ نعت کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس میں رات رات بھر نعتیں چلتی رہتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ شروع میں ایک آدھ حمد پڑھ دی جاتی ہے۔ کمیّت و گنتی کے اعتبار سے حمدیں تھوڑی اور نعتیں زیادہ لکھنا اور پڑھنا، کیا یہ حقِ باری تعالیٰ میں کوتاہی نہیں ؟ جس طرح کمیّت و گنتی کے اعتبار سے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں افراط و غلو اور مبالغہ آمیزی کی جاتی ہے اسی طرح کیفیت و انداز میں بھی بہت ہی زیادہ غلو سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک شاعر کا کہنا ہے: قبر میں فرشتوں سے آپ نے یہ فرمایا جاؤ اس کو سونے دو یہ غلام میرا ہے دوسرا شاعر کہتا ہے ؎ یہ مانتا ہوں اے عقل والو! کہ میرا محمد خدا نہیں ہے مگر یہ سچ ہے عقل والو کہ وہ خدا سے جدا نہیں ہے جائز اور مشروع انداز سے نعت گوئی و نعت خوانی کی جائے اور بیانِ سیرت و نعت گوئی و نعت نویسی اور نعت خوانی میں مکمل احتیاط کا دامن تھام کر رکھا جائے اور وہ اس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل مقام و مرتبہ
Flag Counter