[لوگوں میں زنا اور سود کے عام ہونے پر ان (لوگوں) کا اللہ جل و علا کی سزا کا مستحق ٹھہرنا]
حدیث میں بیان کردہ اس سنگین وعید کا سبب بیان کرتے ہوئے علامہ مناوی لکھتے ہیں:
’’کیونکہ وہ ایسا کام کرنے کا سبب بنے، جس کے ذریعہ انساب کی حفاظت اور پانیوں کے خلط ملط کو روکنے کے متعلق حکمتِ الٰہیہ کی مخالفت ہوئی۔‘‘[1]
۲: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، (کہ انھوں نے بیان کیا): میں نے عرض کیا:
’’أَنَہْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ؟‘‘
’’کیا نیک لوگوں کے اپنے درمیان ہوتے ہوئے بھی، ہم ہلاک ہوجائیں گے؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نَعَمْ، إِذَا کَثُرَ الْخُبَثُ۔‘‘[2]
’’ہاں جب بدکاری زیادہ ہوجائے گی۔‘‘
کتاب [المفہم] کے محققین نے حدیث کے اس حصے پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[ہِلَاکُ الصَّالِحِیْنَ وَالطَّالِحِیْنَ فِيْ حَالِ انْتِشَارِ الزِّنٰی] [3]
[زنا کے عام ہونے کی حالت میں نیک اور بد (سب) لوگوں کا ہلاک ہونا]
|