Maktaba Wahhabi

56 - 322
ایک شبہ اور اس کا ازالہ: حضرت مسیح ۔ علیہ السلام ۔ کی طرف منسوب واقعہ کے مطابق انھوں نے ایک بدچلن عورت سے فرمایا: ’’تیرے گناہ معاف ہوئے۔‘‘[1] انھوں نے اس سے یہ بھی فرمایا: ’’تیرے ایمان نے تجھے بچالیا ہے۔ سلامت چلی جا۔‘‘[2] اس قصے کو بالفرض اگر صحیح اور تحریف سے محفوظ تسلیم بھی کرلیا جائے، تو اس سے زنا کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جاسکتی ہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس عورت پر حد قائم نہ کی، کیونکہ انھوں نے اس میں ایمان، امید، اُن سے بہت زیادہ محبت اور اپنے گناہ پر شدید ندامت کو پایا تھا۔ علاوہ ازیں اسی قصے سے قاری عیسائیت میں زنا کی سنگینی اور شدید قباحت کا تصور اُس بدچلن عورت کی حالت سے کرسکتا ہے، جس میں اظہارِ ندامت اور توبہ کے لیے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئی۔ انجیل لوقا میں ہے: ’’اور اس کے پاؤں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہوکر اس کے پاؤں آنسوؤں سے بھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے ان کو پونچھا اور اس کے پاؤں بہت چومے اور ان پر عطر ڈالا۔‘‘[3] ۷: زانی کا اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کا وارِث نہ ہونا: پولس نے کُرِنتِھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں لکھا: ’’کیا تم نہیں جانتے، کہ بدکار خدا کی بادشاہی کے وارِث نہ ہوں گے؟
Flag Counter