أَہْلِکَ، فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِہٖ مَا شِئْتَ۔‘‘[1]
’’مگر اسے (یعنی خیانت کرنے والے کو) روزِ قیامت اُس (یعنی مجاہد) کے لیے کھڑا کیا جائے گا اور اس (یعنی مجاہد) سے کہا جائے گا:
’’اس نے تمھارے اہل میں تمھاری نیابت کی (اور خیانت کا ارتکاب کیا)، سو تم اس کی نیکیوں سے جو چاہو، لے لو۔‘‘
سنن النسائی میں ہے:
’’ثُمَّ الْتَفَتَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ:
’’مَا ظَنُّکُمْ تُرَوْنَ، یَدَعُ لَہُ مِنْ حَسَنَاتِہٖ شَیْئًا؟‘‘[2]
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’تمھارا کیا گمان ہے، وہ اس کی نیکیوں میں سے کوئی چیز اس کے لیے رہنے دے گا؟‘‘
اس حدیث کے حوالے سے تین باتیں:
۱: [حُرْمَۃُ نِسَائِ الْمُجَاہِدِیْنَ عَلَی الْقَاعِدِیْنِ کَحُرْمَۃِ أُمَّہَاتِہِمْ]
[مجاہدین کی خواتین کی حُرمت [ان کے پیچھے] رہنے والوں پر اپنی ماؤں کی حُرمت جیسی ہے]
اس کی شرح میں امام نووی لکھتے ہیں:
|