Maktaba Wahhabi

201 - 322
الصّٰغِرِیْنَ۔ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ الَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَہُنَّ اَصْبُ اِلَیْہِنَّ وَ اَکُنْ مِّنَ الْجٰہِلِیْنَ۔}[1] [اس عورت نے کہا: سو وہ یہی ہے، جس کے بارے میں تم نے مجھے ملامت کی تھی اور بلاشبہ واقعی میں نے اُسے اُس کے نفس سے پھسلایا، مگر یہ صاف بچ نکلا۔ میں اُسے جو حکم دیتی ہوں، اگر اُس نے وہ نہ کیا، تو وہ ضرور قید کیا جائے گا اور وہ ضرور ہی ذلیل ہونے والوں میں سے ہوگا۔ انھوں [یوسف علیہ السلام ] نے کہا [یعنی دعا کی]: ’’اے میرے رب! جس کی طرف یہ عورتیں مجھے دعوت دے رہی ہیں، مجھے قید خانہ اس سے زیادہ محبوب ہے اور اگر آپ نے مجھ سے ان کا فریب دور نہ کیا، تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور جاہلوں سے ہوجاؤں گا۔] شیخ سعدی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’انھوں (یعنی حضرت یوسف علیہ السلام ) نے شدید عذاب کا موجب بننے والی حاضر لذت پر قید اور دنیوی عذاب کو ترجیح دی۔‘‘[2] جب بندے کو دو باتوں: گناہ کرنے یا دُنیوی سزا برداشت کرنے میں سے ایک منتخب کرنے کے امتحان میں مبتلا کیا جائے، تو اسے چاہیے، کہ وہ دنیا و آخرت میں سزا کا سبب بننے والے گناہ کے ارتکاب پر دُنیوی سزا کو ترجیح دے۔ تنبیہات: اس قصے کے حوالے سے قارئین کرام کی توجہ تین باتوں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں:
Flag Counter