آپ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ،آپ کی بندگی نہیں کی جاسکتی ۔
اللہ تعالیٰ کے بندہ [ عبداللہ] سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ انس و جن مل کر چاہتے ہیں کہ اللہ کے اس نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں ۔ لیکن امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے رجوع کرنا قرار دیا ہے۔ یعنی جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قرآن سنانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو مسلمان بھی آپ کی طرف دوڑے آتے ہیں اور کافر بھی۔ اگرچہ دونوں کے آنے اور ہجوم کرنے کا مقصد الگ الگ اور ایک دوسرے کے برعکس ہوتا ہے۔ مسلمان ہدایت کے طالب ہیں اس لیے وہ فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑتے ہیں اور کافر یہ چاہتے ہیں کہ وہاں شور شرابہ کرکے قرآن کی آواز لوگوں کے کانوں میں نہ پڑنے دیں ۔
ان کا دوسرامقصد یہ ہوتا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظریں جما کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھور گھار کراتنا مرعوب کر دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سنانا بند کردیں ۔اور تیسرا مقصد یہ ہوتا کہ کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کیا جاسکے یا مذاق اڑایا جاسکے۔
وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ کی وضاحت:
عبد کے معنی ہیں ایسا بندہ جو عابد ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں جن کا خاصہ اور وصف عبودیت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ﴾ [الزمر۳۶]
’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ‘‘؟
بارگاہِ الٰہی میں ایک انسان کا سب سے بلند مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ وہ رسالت اور عبودیت خاصہ سے متصف ہو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ دونوں صفتیں بدرجہء اَتم پائی جاتی ہیں ۔ رہی ربوبیت اور اُلوہیت تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ ہیں اور یہ اسی کا حق ہے۔ جس میں کسی بھی صورت میں نہ کوئی نبی و رسول شریک ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ۔
عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دو صفتیں ایک ہی جگہ بیان کی گئی ہیں جو افراط و تفریط کو ختم کرتی ہیں ۔ اکثر لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اُمت محمدیہ میں داخل ہیں
|