﴿قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللّٰہُ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ لَا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا﴾ [الرعد 16]
’’ فرمادیجیے: آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ فرمادیجیے: اللہ۔پوچھئے: پھر کیا تم نے اس کے سوا کچھ کارساز بنا رکھے ہیں جو اپنی جانوں کے لیے نہ کسی نفع کے مالک ہیں اور نہ نقصان کے۔‘‘
توحید کے مضمون سے تعلق رکھنے والی تمام آیات ان معانی میں بیان ہوئی ہیں ۔
کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں توحید:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام میں لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ کی گواہی کا مدلول کلمہ توحید سے مراد تھا۔اس سے صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت مراد ہوتی تھی۔اسکی دعوت کو عام کیا جاتا اوراسی کی قبولیت پر جان و مال کی امان مل جاتی ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا توفرمایا:
((اِنَّکَ تَاْتِیْ قَوْمًا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ فَلَیَکُنْ اَوَّلَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ شہَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔)) وفی روایۃ : ((اِلٰی اَنْ یُّوَحِدُوا اللّٰہَ فَاِنْ ہُمْ اَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَاَعْلِمْہُمْ اَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ علیہم....))[البخاری؛ ح7372 ]
’’تمہارا سامنا اہل کتاب سے بھی ہوگا تمہیں چاہیے کہ سب سے پہلے ان کو کلمہ لَا اِلٰہ اِ لَّا اللّٰہَ کی دعوت دو۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرلیں ۔‘‘ اگر وہ توحید کا اقرار کر لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے [ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں ] فرض کی ہیں ....‘‘
اس باب میں وارد ہونے والی جملہ احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام میں توحید سے مراد لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دینا اور عبادت کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرنا ہے۔اور ربوبیت و الوہیت اور اسماء و صفات
|