۱۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے بھروسہ ختم کرکے غیراللہ پر بھروسہ قائم کیا جاتا ہے۔
۲۔ اس میں ایسی چیز سے تعلق قائم کیا جاتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ، بلکہ وہ محض وہم اور خیال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلَآ اِنَّمَا طٰٓائِرُہُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ [الاعراف131]
’’سن لو!ان کی نحوست تو اللہ ہی کے پاس ہے؛ لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَا عُدْوَی وَلَاطَیْرَۃَ وَلَاہَامَۃَ وَ لَاصِفْرَ۔)) [متفق علیہ]
’’چھوت لگنا ، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْطَیْرَۃُ مِنَ الشِّرْکِ۔)) [رواہ أبو داؤد و الترمذي]
’’ بدشگونی لینا شرک کا کام ہے۔‘‘
بد شگونی لینے والے کے احوال :
اوّل: ....یہ کہ اس بدشگونی کو سنجیدگی سے لے، اور کوئی بھی کام کرنے سے باز آجائے تو یہ سب سے بڑی نحوست اور بدشگونی ہے۔
دوم:....یہ کہ وہ اس کام کو تو کر گزرے مگر اس میں رنجیدہ وپریشان اور کبیدہ خاطر رہے ، اور یہ خوف محسوس کرتا رہے کہ کہیں یہ نحوست اس پر اثر انداز نہ ہوجائے۔ یہ بھی بدشگونی اور نحوست ہے ،مگر پہلے سے کم درجہ کی ہے۔
اس کی ہر دو صورتیں توحید کی ناقض اور انسان کے لیے نقصان دہ ہیں ۔
بد شگوني کا کفارہ:.... جس کے دل پر بد شگونی اثر کر جائے اسے چاہیے کہ وہ یہ دعا پڑھے :
((اَللّٰہُمَّ لَا یَأْتِيَ بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَ لَا یَدْفَعُ السَّیِئَاتِ إِلاَّ
|