نیک بندوں کو بندے ہی رہنے دو اور دین کی سربلندی کے لیے ان کا ساتھ دو اور اگر وہ فوت ہو چکے ہیں تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرو اور ان کے وہ اچھے کام جو کتاب و سنت کے مطابق تھے،انہیں اختیار کرو۔سچے اہل ایمان کی یہ صفت اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں بیان کی ہے۔ارشاد فرمایا:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ [الحشر10]
’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب !یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
اولیاء اللہ کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ کافرمان ہے:جوشخص میرے کسی ولی (دوست) سے عداوت رکھے میرااس سے اعلان جنگ ہے،میرابندہ میرے فرض کردہ امور کے سواکسی اورچیز کے ذریعہ میرے زیادہ قریب نہیں آسکتا،میرابندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتاہوں اورجب میں اس سے محبت کرنے لگتاہوں تومیں اس کاکان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے ، اس کی آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے اور اس کاہاتھ بن جاتاہوں ،جس سے وہ پکڑتاہے،اوراس کاپاؤں بن جاتاہوں جس سے وہ چلتاہے، وہ مجھ سے مانگے تومیں اسے ضروردیتاہوں ،مجھ سے پناہ طلب کرے تومیں اسے
|