Maktaba Wahhabi

110 - 184
اور جو شخص سیپی وغیرہ لٹکائے اللہ اسے آرام نہ دے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جس شخص نے اپنے گلے میں تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔‘‘ صحیح بخاری وصیح مسلم میں سیدنا ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : (( اَنَہٗ کَا نَ مَعَ رَسُوْلِ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ بَعْضِ اَسْفَارِہٖ فَاَرْسَلَ رَسُوْلًا اَنْ لَّا یَبْقَیَنَّ فِیْ رَقَبَۃِ بَعِیْرٍ قِلَادَۃٌ مِّنْ وَتَرٍ اَوْ قِلَادَۃٌ اِلَّا قُطِعَتْ۔)) ’’میں ایک سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ تھا۔ آپ نے اپنے ایک قاصد کو بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں کوئی ایسی رسی باقی نہ رہنے دی جائے (جونظر بد وغیرہ کے سلسلے میں لوگ باندھ دیا کرتے تھے) اگر ہے تو اس کو کاٹ دیا جائے۔‘‘ ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اس قسم کے تعویذ گنڈے قطعاً ممنوع ہیں اگرچہ ان کا پہننے والا یہ خیال کرتا ہو کہ یہ صرف اسباب ہیں ، حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی مصیبت کو دور کرنے والے اورمشکلات سے نجات دینے والے ہیں ۔اور یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ اسباب بھی وہی اختیار کرنے چاہئیں جن کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود ہو۔ تعویذ دھاگے اور صدف وغیرہ لٹکانا تو جاہلیت کی رسمیں ہیں جو کہ شرک کے کام ہیں ؛ اگرچہ انسان ان کو نافع اور ضرر رساں نہ بھی خیال کرے۔ اس قسم کے اعمال کی برائی سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے اور اگر ہو سکے تو ہاتھ سے روک دے ورنہ زبان سے تو اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ ۹:جھاڑپھونک اوردم: جھاڑ پھونک کی دو اقسام ہیں : ۱۔ مشروع جھاڑ پھونک ۲۔ ممنوع جھاڑ پھونک۔ مشروع جھاڑ پھونک: وہ ہے جس میں باتفاق علماء تین شرائط پائی جائیں : ۱۔ واضح عربی زبان میں ہو، اور اس کا معنی سمجھا جاسکتا ہو۔[اگر غیر عربی زبان میں ہو تو اتنا صاف اور واضح ہو کہ اس میں کو مشتبہ یا شرکیہ کلام نہ ہونہ شرک کا شائبہ ہو]۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو، یا اس کے اسماء و صفات پر مشتمل یا مشروع و مسنون و ماثور اذکار و
Flag Counter