’’اور گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے‘‘۔
بسا اوقات یہ خوف انسان کو کفر و شرک تک پہنچا دیتا ہے کہ انسان پھر اللہ تعالیٰ تک رسائی کیلئے ایسے وسیلے اور ذریعے تلاش کرنے لگ جاتا ہے جن کی اجازت شریعت میں نہیں ۔
خلاصہ کلام:
شریعت اِسلامیہ میں خوف الٰہی کو افضل و اہم ترین مقام حاصل ہے اور عبادات میں اس کو مرکزیت حاصل ہے لہٰذا خوف و خشیت صرف اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کافرمان گرا می ہے:
﴿اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ أَوْلِیَائَ ہٗ فَلَا تَخَافُوْہُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ [آل عمران :175]
’’بیشک وہ در اصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا۔ لہٰذا تم ان سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو۔‘‘
فائدہ:....ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ أَرْضٰی عَنْہُ النَّاسَ۔ وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَی النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰہِ سَخَطَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ أَسْخَطَ عَلَیْہِ النَّاسَ۔ )) [ابن حبان]
’’جو شخص لوگوں کی ناراضی مول لے کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتاہے، اس پر اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتاہے اور لوگ بھی خوش ہوجاتے ہیں ۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کی خوشی کا طالب ہوتاہے اس پر لوگ بھی ناراض اور اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔‘‘
٭٭٭
|