کاشرف بھی انہیں حاصل ہوگیا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ اب تمہیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھاجو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہاتھا لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا۔ مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو۔‘‘
ان آیات میں وارد مضمون کو اچھی طرح مکمل طور پڑہنے سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ شیطان کیسے انسانوں کو ڈرا کر احکام شریعت سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔
حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس آیت کا معنی یہ ہے کہ:
’’مسلمانوں کے دلوں میں ابلیس اپنے لشکر کے بہت عظیم اور بھاری ہونے کا وسوسہ پیداکرتاہے۔ اگرانسان کا ایمان قوی اور مضبوط ہوگا تو اس کے دل میں خوف پیدا نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی کمزورایمان والاشخص ہے تو ڈر جائے گا۔‘‘
۳۔ جائز خوف:.... یہ طبعی خوف ہے ، جیسے کہ شیر [یا درندے] سے ڈر جانا؛ دشمن کا خوف، ظالم بادشاہ کا خوف۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَۃِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ﴾ [القصص18]
’’ صبح کو ڈرتے اور خطرہ کو بھانپتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے۔‘‘
۴۔ عبادت خوف:.... صرف اللہ وحدہ لاشریک کا خوف رکھنا؛ اور اسی سے لرزاں و ترساں رہنا۔اللہ تعالیٰ سے خوف دو طرح کا ہوتا ہے:
۱۔محمود خوف:.... وہ خوف جو انسان اورمعصیت الٰہی کے درمیان حائل ہو اور جس کی بنا پر انسان واجبات بجا لائے اورمحرمات کو ترک کردے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ ﴾ [الرحمن 46]
’’ اور جو اپنے رب کے حضور قیام سے ڈر گیا اس کے لیے دو باغ ہیں ۔‘‘
۲۔مذموم خوف: .... جو انسان کواللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور ناامید کر دے۔اس قسم کا خوف کھلی گمراہی اور بد عقیدگی اور بدگمانی ہے؛اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ﴾[الحجر56]
|