سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں ۔خوف کی یہی وہ صورت ہے جو قبر پرستوں اور غیراللہ کی عبادت کرنے والوں میں پائی جاتی ہے۔ قبرپرست خود بھی ان سے ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں اور جب اہلِ توحیدانہیں حاجت روا و مشکل کشا اور کسی بھی چیز میں مدبر اور متصرف ما ننے سے انکار کرتے ہیں اور خالص اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں تو انہیں بھی یہ ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خوف کی یہ قسم توحید ِ خالص کے سَراسَرمنافی اور شرک باللہ پرمبنی ہے۔
۲۔ حرام خوف:.... یہ کہ انسان لوگوں کے خوف سے کسی واجب کو ترک کردے یا کسی حرام کا ارتکاب کر دے ،اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ ﴾ [المائدۃ 44]
’’ پس ان سے مت ڈرو مجھ سے ہی ڈرو ۔‘‘
یہ خوف قطعی حرام ہے خوف کی یہ صورت وہ شرک ہے جو کمالِ توحید کے منافی ہے.... زیر نظر آیت کریمہ کے نازل ہونے کا سبب بھی یہی خوف تھاکہ مشرکین نے اہل ایمان کو لوگوں کی تعداد سے ڈرا کر فریضہ جہاد سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ قرآنِ کریم نے اس خوف کو ان الفاظ میں بیان کیاہے:
﴿اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ() فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوْٓئٌ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ() اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَہٗ فَلَا تَخَافُوْہُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران:173۔175)
’’اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ان سے ڈرو۔ تو یہ سن کران کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارسازہے۔ آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے
|