Maktaba Wahhabi

104 - 184
حقیقت یہ ہے کہ علماء و مشائخ اور اولیاء و صالحین کے بارے میں حد سے زیادہ تجاوز کرنے اور ان کی شان میں غلو کرنے کی وجہ سے غیراللہ کو پکارنے اور انہیں اپنا حاجت روا ومشکل کشا سمجھنے اور ان کے سامنے جبین نیاز خم کرنے کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ عیسائیوں نے سیدنا حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق انتہائی غلو سے کام لیا؛ انہیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرارد ینے لگے۔یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کو بیٹا قرار دیا۔ اور اسلام میں پہلے کچھ لوگوں نے ایک سازش کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے متعلق انتہائی غلو کرتے ہوئے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا قرار دیا۔بعض لوگ حد سے تجاوز کرتے ہوئے آپ کو خدا اوررب قرار دینے لگے۔اوربعض لوگ تمام امور کائنات پر ان کا تصرف ماننے لگے۔ اس کے بعد اولیاء و صالحین کی ایک جماعت کے متعلق اس قسم کے خرافات عقائد سامنے آئے جن کا اصل اسلام سے دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔ پس ہر وہ شخص جو کسی نبی، رسول یا کسی صالح انسان؛یا کسی ولی کے بارے میں غلو سے کام لیتا ہے اور اُلوہیت کا کوئی انداز ان میں تصور کرتا ہے، مثلًا یہ کہتا ہے کہ : ’’اے حضرت میری مدد کیجئے ، یا میری فریاد رسی کیجئے یا مجھے رزق دیجئے یا میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘ [جیسا کہ ہمارے جہلاء بھی کہتے ہیں : یا گیارھویں والے بچانا؛ یا پنجتن پاک مدد کرنا]یا کہتا ہے کہ: فلاں پیرہماراحاجت رواہے؛ فلاں ولی مشکل کشا ہے؛ فلاں صاحب داتا ہے۔ فلاں صاحب نے کائنات تھام رکھی ہے۔یاد رہے کہ اس قسم کے تمام اقوال محض شرک اور ضلالت ہیں ۔ اس قسم کے الفاظ کہنے والے سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا۔ اگر ایسا انسان اپنے اس خرافات عقیدہ سے توبہ کیے بغیر مر گیا تو وہ ابد الاباد جہنمی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے دعوت توحید کے لیے تو انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا اور کتابیں نازل فرمائیں کہ صرف اس ایک اللہ کی عبادت کی جائے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس کے علاوہ کسی اور کو معبود نہ پکارا جائے۔‘‘ سو جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو معبود قرار دیتے تھے، مثلًا عیسیٰ علیہ السلام ، یا حضرت
Flag Counter