شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ’’ہر دعا عبادت ہے، جو مستلزم ہے دعائے سوال کو اور ہر دعا سوال ہے جو متضمِّن ہے دعائے عبادت کو۔‘‘
دعائے سوال کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ﴾ [الاعراف:55]
’’اپنے ربّ کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے :
﴿وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَ ہُمْ عَنْ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوْنَ () وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ ﴾ [الاحقاف:5تا6]
’’آخر اس سے زیادہ بہکا ہوا انسان کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں ۔ اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور اُن کی عبادت کے منکر ہوں گے۔‘‘
اور اللہ عزوجل فرماتے ہیں :
﴿قُلْ اَرَئَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللّٰہِ تَدْعُوْنَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ () بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآئَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ﴾ [الانعام:40،41]
’’ذرا سوچ کربتائو اگر تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو بولو اگر تم سچے ہو تو اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتاہے ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو ۔‘‘
|