عزیر علیہ السلام یادیگر کسی نبی یا ولی یا ملائکہ اور اصنام وغیرہ کو، تو ان کا یہ عقیدہ ہرگز نہ تھا کہ یہ کسی مخلوق کو پیدا کرتے ہیں یا بارش برساتے ہیں یا فصلیں وغیرہ اُگاتے ہیں ۔ بلکہ وہ ان کی عبادت اس لیے کرتے اوران کی قبروں کو اس لیے پوجتے تھے یا ان کی تصویروں کے سامنے جھکتے تھے کہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں اولیاء اللہ مقربین میں سے خیال کرتے تھے۔یہ بات درست ہے کہ وہ حقیقت میں اولیاء اللہ ہی تھے۔ مگر اس کے ساتھ دوسرا غلط عقیدہ یہ ملاتے تھے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ تک ہماری رسائی کرواتے ہیں اور اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو رد نہیں کرتے۔ قرآن مجید اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفَی﴾ [الزمر۔2]
’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ تک ہماری رسائی کرادیں ۔‘‘
اور ان کے سفارشی ہونے کے عقیدہ کے متعلق فرمایا:
﴿وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَ لَا یَنْفَعُہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾ [یونس 10]۔
’’اور وہ اللہ کے سواایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔‘‘
یہی حال مسلمانوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ؛حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ اور دوسرے اولیاء و صالحین کے ساتھ روا رکھا ہے اور کہتے ہیں : یہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے لے کر دیتے ہیں ۔ہماری التجاء ان کے آگے اوران کی عرضی رب کے آگے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو کتنے روشن الفاظ میں واضح کیا ہے ؛ فرمایا:
﴿وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَاکَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ہُوَ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ ہُوَ الْغَفُوْرُ
|