ایک ماہ تک ایک قوم کے خلاف بد دعا کی ، اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کیلئے دعا فرمائی جنہیں کمزور سمجھ کر کچھ لوگوں نے قیدی بنا لیا تھا ، اور انہیں ہجرت کرنے سے منع کردیا تھا ، لیکن جب یہ صورتحال ختم ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوتِ نازلہ بھی چھوڑ دی ، اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے خلفائِ راشدین رضی اللہ عنہم نے نمازِ فجر یااس کے علاوہ کسی اور نماز میں قنوتِ نازلہ پر ہمیشگی نہیں فرمائی ، بلکہ جیسے ہی اس کا سبب ختم ہوتا ، وہ اسے ترک کردیتے ، اور ہمیشہ جاری نہ رکھتے ، لہذا سنت یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کے مطابق دعا کی جائے ، چاہے دعا کسی کے حق میں ہو یا کسی کے خلاف ہو ۔ [ دیکھئے : فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ : ۲۱/۱۵۱ ، ۲۳/۹۸ ، زاد المعاد : ۱/۱۷۲ ] اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء تمام نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی ، تاہم مغرب اور فجر میں اس کی زیادہ تاکید پائی جاتی ہے ، اور جیسے ہی اس کا سبب ختم ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کردیا ، حتی کہ فجر میں بھی اسے چھوڑ دیا ، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نمازِ فجر میں ہمیشہ قنوت کوجاری رکھنا بدعت ہے ، ہاں اگر اس کا سبب جاری رہے تو قنوت بھی جاری رکھی جا سکتی ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ قنوت کے مسئلے میں مسلمانوں کے تین مختلف نظریات پائے جاتے ہیں : ایک یہ ہے کہ قنوت منسوخ ہے اور ہر قسم کی قنوت بدعت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت پڑھی ، پھر اسے چھوڑ دیا ، اور چھوڑ دینا اس کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے ۔ دوسرا یہ ہے کہ قنوت مشروع ہے اور اسے نمازِ فجر میں ہمیشہ جاری رکھنا سنت ہے ۔ |