[ شرح صحیح مسلم للنووی : ۶/۳۵۸ ۔ جبکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری : ۲/۵۹ میں بعض سلف سے مطلقا جواز نقل کیا ہے ، اور ان کے نزدیک احادیثِ نہی منسوخ ہیں ، اور بعض اہلِ علم کے نزدیک ان اوقات میں مطلقا نماز منع ہے ] اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ سببی نمازوں کوممنوعہ اوقات میں پڑھنا جا ئز ہے ۔ اور ان کا کہنا ہے کہ یہی علماء کا صحیح ترین قول ہے ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ [ مجموع فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ : ۲۳/۲۱۰] اور جن علماء نے یہ کہا ہے کہ احادیثِ نہی غیر سببی نمازوں پر محمول کی جائیں گی ، اور ان سے سببی نمازیں مستثنی ہونگی ، تاکہ تمام دلائل کے درمیان تطبیق دی جا سکے ، تو ان کے اس قول کے بارے میں امام ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’ یہی قول صحیح ترین قول ہے ، اور یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے ، اور اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ، اور ان کے شاگرد علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے ، اور اسی سے تمام احادیث پر عمل ہوتا ہے ، واللہ اعلم ۔‘‘[حاشیۃ ابن باز علی فتح الباری : ۲/۵۹] اور سببی نمازوں کے مستثنی ہونے کی ایک دلیل حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( یٰا بَنِیْ عَبْدِ مَنَاف ، لاَ تَمْنَعُوْا أَحَدًا طَافَ بِہٰذَا الْبَیْتِ وَصَلّٰی، أَیَّۃَ سَاعَۃٍ شَائَ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ ) ترجمہ : ’’ اے بنی عبد مناف ! کسی ایسے شخص کو منع نہ کرنا جس نے دن اور رات کی کسی |